۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
بحرین

حوزہ/ سات بے گناہ بحرینی قیدی نوجوانوں کی گرفتاری کو تقریباً 13 سال ہوچکے ہیں جو ابھی تک جھوٹے، پہلے سے طے شدہ اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ کے مطابق، جمعیت العمل الاسلامی بحرین نے "بحرین کے علاقہ المعامیر کے قیدی نوجوانوں کی گرفتاری کا انجام کیا ہوا؟" کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں ان 7 بے گناہ بحرینی قیدی نوجوانوں کی گرفتاری کا ذکر ہے کہ جنہیں قید ہوئے تقریباً 13 سال ہوچکے ہیں اور وہ ابھی تک جھوٹے، پہلے سے طے شدہ اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

سات بحرینی نوجوانوں کو 7 مارچ 2009 کو ایک پاکستانی تارک وطن کی کار میں آگ لگانے اور اس کے نتیجے میں اس کی موت کے بعد قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ بحرینی پراسیکیوٹر کا ان کی نظر بندی کا جواز پیش کرنے کا دعویٰ یہ تھا کہ ان نوجوانوں نے مل کر اس شبہ میں گاڑی میں آگ لگائی گئی تھی کہ اس پاکستانی کی گاڑی حکومتی فوجیوں کی ہے۔ یہ جوان اب بھی آل خلیفہ حکومت کی جیلوں میں قید ہیں۔

ایک قیدی "کمیل المنامی" کو 31 مارچ 2009 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسے انتہائی شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تشدد کرنے والوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے جرم کا اعتراف نہ کیا تو اس کی بیوی کو بھی قید کر دیا جائے گا۔ لہذا اس نےمجبورا اپنے ناکردہ گناہ کا اعتراف کر لیا۔

قیدی "محمد عیسیٰ" کو اس کے ماموں کے گھر سے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے دوران ہی اسے لاتوں اور مکوں سے مارا پیٹا گیا اور اس پر مرچوں والا اسپرے کیا گیا اور مخصوص سیاہ چال جیسے زندان تک لے جاتے وقت اس پر تشدد کیا گیا اور اس زندان میں تو اس کے لیے اذیت ناک ظلم و تشدد کے کئی طریقے تیار کئے گئے تھے۔

قیدی "جاسم عیسیٰ" کو بھی گرفتاری کے وقت سے مارا پیٹا گیا اور سب کے سامنے اس کی توہین کی گئی، جیل میں اس پر تشدد کیا جاتا ہے اور اس پر نہانے پر پابندی عائد ہے۔ چار دن اور راتوں تک اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ نہ کھا سکتا تھا اور نہ سو سکتا تھا۔

قیدی "حسین سرحان" کو اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا اور سیکورٹی فورسز کے اس کے گھر میں داخل ہونے کے آغاز سے ہی اس پر حملہ کیا گیا اور مارا پیٹا گیا، اس پر بھی مرچ کا اسپرے چھڑکایا گیا جس سے وہ اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتا تھا اور اسے دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے اپنے جرائم کا اقرار نہ کیا تو اس کی ماں اور بہن کو بھی گرفتار کر لائیں گے۔ اسے پورے دو دن تک بغیر کھائے پیئے واش روم میں رکھا گیا۔

"عیسیٰ علی سرحان" نامی ایک قیدی کو 16 مارچ 2009 کی صبح آل خلیفہ حکومت کے گماشتوں کے ذریعہ اس کے گھر پر چھاپہ مار کر اس کے گھر کو تباہ کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اسے ننگے پاؤں، آنکھیں اور ہاتھ بند کرکے حکومت کے خوفناک ٹارچر سیل اور دہشت گردوں کے مخصوص چیمبرز میں لے جایا گیا اور شدید مارا پیٹا گیا اور طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے بھی دھمکی دی گئی کہ اگر تم نے اعتراف نہ کیا تو ہم تمہاری ماں اور بہن کو گرفتار کر لیں گے۔ اپنی عزت اور ناموس کو بچانے کے لیے اس نے بھی وہ بھی ایسے جرم کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوا جو سرے سے اس نے کیا ہی نہیں تھا۔

قیدی "صادق جعفر مہدی" کو اسپیشل فورسز نے گرفتار کیا اور اسے اس کے گھر میں گھس کر شدید مارا پیٹا گیا اور بار بار پیپر اسپرے کے استعمال کی وجہ سے وہ اپنا ہوش تک کھو بیٹھا۔

قیدی "احمد علی احمد سعید" کو ان کے گھر سے گرفتار کر کے آل خلیفہ حکومت کے ٹارچر سیل میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اسے طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے منہ میں مرچ کا سپرے ڈالا گیا۔ اسے بھی انتہائی وحشیانہ تشدد کے تحت اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا گیا۔

آج ان بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاری کو تقریباً 13 سال گزر چکے ہیں جو آج بھی جھوٹے، پہلے سے طے شدہ اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان بے گناہ قیدیوں کو کب رہا کیا جائے گا اور ان کا انجام کیا ہوگا؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .